0 оценок0% нашли этот документ полезным (0 голосов)
87 просмотров3 страницы
ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
مولوی جیؒ ؒ : ’وارث علم ‘
جنوب مشرق ایشیاء کے قدیم ترین زندہ تاریخی شہر پشاور کا امتیاز رہا ہے کہ یہ ہر دور میں تہذیب و تمدن کا گہوارہ رہا۔ ماہرین آثار قدیمہ نے پشاور کی پہلی اینٹ کم و بیش چھبیس سو برس قبل رکھنے والوں پر اتفاق کرتے ہوئے کھدائیوں سے ملنے والے جن ظروف کو اوائل پشاور کی نشانی قرار دیا ہے وہ بھی منقش ہیں‘جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ دو ہزار سال قبل بھی اس خطے کے رہنے والے بودوباش کے اعتبار سے ممتاز تھے اور اُن کے زیراستعمال برتنوں اور یہاں کے فن تعمیر سے اِس بات کا اندازہ لگانا قطعی دشوار نہیں کہ یہ علاقہ دنیا بھر کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ حتی کہ قبل اسلام بدھ مت کا مرکز اور اس کی ترویج بھی اسی مردم شناس خطے سے ہوئی۔ یوں پشاور کی بات کرتے ہوئے کئی مستند حوالے اور شخصیات کا ذکر تاریخ میں محفوظ ہے‘ جنہیں سیاسی طور پر نہیں بلکہ حقیقی و معنوی اعتبار سے ’’فخر پشاور‘‘ کہا جاتا ہے اور دنیا سے پردہ کرنے کے باوجود بھی ’’سرتاج پشاور‘‘ کی مسندعالیشان پر جلوہ افروز ہیں‘ صرف دیکھنے والی آنکھ اور سننے والے کان ایک بیدار دل کے ساتھ محسوس کر سکتے ہیں پشاور میں جن کے دم کرم سے علم و عرفان کے چراغ ہوئے اور جنہوں نے اپنی پوری حیات ’’وقف پشاور‘‘کئے رکھی۔ سیاسی و سماجی اور روحانی قیادت کے ساتھ بھائی چارے‘ اخوت اور محبت کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا وہ سب لافانی ہیں۔ ایسی ہی ایک ممتاز و معروف شخصیت پیرطریقت حضرت سید محمد اَمیر شاہ قادری گیلانی المعروف مولوی جی رحمۃ اللہ علیہ (پیدائش 1920ء‘ وصال 2004ء) کی ہے‘ جو اپنا نام نامی تحریر کرنے سے قبل لفظ ’’فقیر‘‘ کا اضافہ فرما دیا کرتے کہ یہی اُن کا طریق تھا۔ درحقیقت اپنے نام کی مثل علم و دانائی‘ معاملہ فہمی اور سیاسی شعور کی معراج پر فائز تھے۔ قیام پاکستان کی تحریک اور جدوجہد میں اُن کی خدمات‘ آپ کے والد گرامی حضرت حافظ سیّد محمد زمان شاہ قادری گیلانی رحمۃ اللہ علیہ سمیت جملہ عقیدتمندوں و اہل خانہ کی قربانیں ایک روشن باب ہے جس کا احاطہ ضمنی طورپر ممکن نہیں۔
مولوی جیؒ کی ’مہمان نوازی‘ اور ’فراغ دلی‘ بھی کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ وسیع القلب اور کشادہ دسترخوان رکھنے والے درحقیقت پشاور کے ’نبض شناس‘ تھے۔ وہ مزاج اور رواج کو بخوبی سمجھتے‘ جانتے اور اُس کے قدرداں تھے۔ اُنہیں ’حفظ مراتب‘ کا ہمیشہ پاس رہتا اور یہی وجہ تھی کہ اُن کی موجودگی میں ہر محفل چاہے وہ کتنی ہی نجی کیوں نہ ہو‘ روحانی فیوض و برکات میں ڈھل جاتی اور اس میں ہر مکتبہ فکر و عقیدے سے تعلق رکھنے والوں کو چشمہ علم سے ’’فیض و تسکین‘‘ ملتی۔ فارسی (خالصتاً ادبی ایرانی و افغانی)‘ عربی‘ اُردو‘ پشتو اور ہندکو زبانوں پر مکمل عبور رکھتے۔ خاصہ یہ تھا کہ عجز و انکساری کے پیکر تھے۔ اپنی علمیت کے زعم میں کبھی بھی کسی کو حقیر یا کم علم نہ سمجھا۔ تربیت و شخصیت سازی پر توجہ مرکوز رکھی۔ اپنی پوری زندگی عقیدے کی اہمیت اور اس کی حفاظت پر زور دیتے رہے۔ علم دوستی کی انتہاء یہ تھی کہ اپنی مسند علمائے کرام کے لئے خالی کر دیا کرتے اور اُنہیں اپنی نشست گاہ پر تشریف رکھنے اور التماس دعا کرتے ہوئے میزبانی میں کسی بھی قسم کی کسر نہیں چھوڑا کرتے تھے۔ ملاقات کا شرف حاصل کرنے والوں کو ’بقدر ظرف اور سمجھ‘ علم اور تحائف عطا کرتے ہوئے کبھی بھی کنجوسی سے کام نہیں لیا اور یہی وجہ تھی کہ ’عام فہم ہلکے پھلکے انداز اور ہندکو زبان میں بات چیت کرنے والے مولوی جیؒ کے دردولت ’’اَندرون یکہ توت‘ کوچہ آقا پیر خان‘‘ میں آستانہ عالیہ تشناگان علم‘ کی روحانی تسکین و تشفی کا مرکز رہا اور آج بھی اُن کی ذات بابرکات کے فیض و برکات سے مستفید ہونے والوں کو وہاں ہجوم رہتا ہے۔ عجز و انکسار اور سادگی میں مولوی جیؒ کا ثانی نہ تھا۔ آپ دین کی سمجھ بوجھ اور علم و دانائی کے سبب عالمی شہرت رکھتے تھے۔ آپ کی کئی تصانیف برطانیہ و امریکہ کے مرکزی کتب خانوں کا حصہ ہیں‘ جنہیں اسلامی علوم کی تشریح و بیان کے حوالے سے مستند درجہ حاصل ہے جبکہ تصوف اور علوم دین کی پیاس رکھنے والوں کے لئے آج بھی مولوی جیؒ کی تصانیف سے استفادہ کئے بناء چارہ نہیں۔
فقہ حنفی اور طریقت میں سلسلہ قادریہ حسنیہ سے تعلق رکھنے والے مولوی جیؒ کے لئے کتاب گویا ’آکسیجن‘ جیسا درجہ رکھتی تھی۔ ایک ٹریفک حادثے سے آپ کی بصارت متاثر ہوئی لیکن کتاب سے تعلق ٹوٹنے نہ دیا۔ یاداشت ایسی تھی کہ حوالہ دیتے ہوئے احادیث و تفاسیر و عربی و فارسی لغات اور ادب کی کتب کی جلد‘ صفحہ نمبر‘ حتی کہ حاشیے پر لکھی ہوئی کسی عبارت کا حوالہ تک دے جاتے اور اپنے ایک ہی بیان میں متعدد کتب احادیث و تفاسیر کا ذکر روانی میں یوں کرتے‘گویا سب کی سب اُن کے سامنے رکھی ہوئی ہوں۔
مولوی جیؒ کے یوم وصال (عرس مبارک) کے موقع پر اُن کی زندگی کا ایک خاص واقعہ نذ
ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
مولوی جیؒ ؒ : ’وارث علم ‘
جنوب مشرق ایشیاء کے قدیم ترین زندہ تاریخی شہر پشاور کا امتیاز رہا ہے کہ یہ ہر دور میں تہذیب و تمدن کا گہوارہ رہا۔ ماہرین آثار قدیمہ نے پشاور کی پہلی اینٹ کم و بیش چھبیس سو برس قبل رکھنے والوں پر اتفاق کرتے ہوئے کھدائیوں سے ملنے والے جن ظروف کو اوائل پشاور کی نشانی قرار دیا ہے وہ بھی منقش ہیں‘جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ دو ہزار سال قبل بھی اس خطے کے رہنے والے بودوباش کے اعتبار سے ممتاز تھے اور اُن کے زیراستعمال برتنوں اور یہاں کے فن تعمیر سے اِس بات کا اندازہ لگانا قطعی دشوار نہیں کہ یہ علاقہ دنیا بھر کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ حتی کہ قبل اسلام بدھ مت کا مرکز اور اس کی ترویج بھی اسی مردم شناس خطے سے ہوئی۔ یوں پشاور کی بات کرتے ہوئے کئی مستند حوالے اور شخصیات کا ذکر تاریخ میں محفوظ ہے‘ جنہیں سیاسی طور پر نہیں بلکہ حقیقی و معنوی اعتبار سے ’’فخر پشاور‘‘ کہا جاتا ہے اور دنیا سے پردہ کرنے کے باوجود بھی ’’سرتاج پشاور‘‘ کی مسندعالیشان پر جلوہ افروز ہیں‘ صرف دیکھنے والی آنکھ اور سننے والے کان ایک بیدار دل کے ساتھ محسوس کر سکتے ہیں پشاور میں جن کے دم کرم سے علم و عرفان کے چراغ ہوئے اور جنہوں نے اپنی پوری حیات ’’وقف پشاور‘‘کئے رکھی۔ سیاسی و سماجی اور روحانی قیادت کے ساتھ بھائی چارے‘ اخوت اور محبت کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا وہ سب لافانی ہیں۔ ایسی ہی ایک ممتاز و معروف شخصیت پیرطریقت حضرت سید محمد اَمیر شاہ قادری گیلانی المعروف مولوی جی رحمۃ اللہ علیہ (پیدائش 1920ء‘ وصال 2004ء) کی ہے‘ جو اپنا نام نامی تحریر کرنے سے قبل لفظ ’’فقیر‘‘ کا اضافہ فرما دیا کرتے کہ یہی اُن کا طریق تھا۔ درحقیقت اپنے نام کی مثل علم و دانائی‘ معاملہ فہمی اور سیاسی شعور کی معراج پر فائز تھے۔ قیام پاکستان کی تحریک اور جدوجہد میں اُن کی خدمات‘ آپ کے والد گرامی حضرت حافظ سیّد محمد زمان شاہ قادری گیلانی رحمۃ اللہ علیہ سمیت جملہ عقیدتمندوں و اہل خانہ کی قربانیں ایک روشن باب ہے جس کا احاطہ ضمنی طورپر ممکن نہیں۔
مولوی جیؒ کی ’مہمان نوازی‘ اور ’فراغ دلی‘ بھی کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ وسیع القلب اور کشادہ دسترخوان رکھنے والے درحقیقت پشاور کے ’نبض شناس‘ تھے۔ وہ مزاج اور رواج کو بخوبی سمجھتے‘ جانتے اور اُس کے قدرداں تھے۔ اُنہیں ’حفظ مراتب‘ کا ہمیشہ پاس رہتا اور یہی وجہ تھی کہ اُن کی موجودگی میں ہر محفل چاہے وہ کتنی ہی نجی کیوں نہ ہو‘ روحانی فیوض و برکات میں ڈھل جاتی اور اس میں ہر مکتبہ فکر و عقیدے سے تعلق رکھنے والوں کو چشمہ علم سے ’’فیض و تسکین‘‘ ملتی۔ فارسی (خالصتاً ادبی ایرانی و افغانی)‘ عربی‘ اُردو‘ پشتو اور ہندکو زبانوں پر مکمل عبور رکھتے۔ خاصہ یہ تھا کہ عجز و انکساری کے پیکر تھے۔ اپنی علمیت کے زعم میں کبھی بھی کسی کو حقیر یا کم علم نہ سمجھا۔ تربیت و شخصیت سازی پر توجہ مرکوز رکھی۔ اپنی پوری زندگی عقیدے کی اہمیت اور اس کی حفاظت پر زور دیتے رہے۔ علم دوستی کی انتہاء یہ تھی کہ اپنی مسند علمائے کرام کے لئے خالی کر دیا کرتے اور اُنہیں اپنی نشست گاہ پر تشریف رکھنے اور التماس دعا کرتے ہوئے میزبانی میں کسی بھی قسم کی کسر نہیں چھوڑا کرتے تھے۔ ملاقات کا شرف حاصل کرنے والوں کو ’بقدر ظرف اور سمجھ‘ علم اور تحائف عطا کرتے ہوئے کبھی بھی کنجوسی سے کام نہیں لیا اور یہی وجہ تھی کہ ’عام فہم ہلکے پھلکے انداز اور ہندکو زبان میں بات چیت کرنے والے مولوی جیؒ کے دردولت ’’اَندرون یکہ توت‘ کوچہ آقا پیر خان‘‘ میں آستانہ عالیہ تشناگان علم‘ کی روحانی تسکین و تشفی کا مرکز رہا اور آج بھی اُن کی ذات بابرکات کے فیض و برکات سے مستفید ہونے والوں کو وہاں ہجوم رہتا ہے۔ عجز و انکسار اور سادگی میں مولوی جیؒ کا ثانی نہ تھا۔ آپ دین کی سمجھ بوجھ اور علم و دانائی کے سبب عالمی شہرت رکھتے تھے۔ آپ کی کئی تصانیف برطانیہ و امریکہ کے مرکزی کتب خانوں کا حصہ ہیں‘ جنہیں اسلامی علوم کی تشریح و بیان کے حوالے سے مستند درجہ حاصل ہے جبکہ تصوف اور علوم دین کی پیاس رکھنے والوں کے لئے آج بھی مولوی جیؒ کی تصانیف سے استفادہ کئے بناء چارہ نہیں۔
فقہ حنفی اور طریقت میں سلسلہ قادریہ حسنیہ سے تعلق رکھنے والے مولوی جیؒ کے لئے کتاب گویا ’آکسیجن‘ جیسا درجہ رکھتی تھی۔ ایک ٹریفک حادثے سے آپ کی بصارت متاثر ہوئی لیکن کتاب سے تعلق ٹوٹنے نہ دیا۔ یاداشت ایسی تھی کہ حوالہ دیتے ہوئے احادیث و تفاسیر و عربی و فارسی لغات اور ادب کی کتب کی جلد‘ صفحہ نمبر‘ حتی کہ حاشیے پر لکھی ہوئی کسی عبارت کا حوالہ تک دے جاتے اور اپنے ایک ہی بیان میں متعدد کتب احادیث و تفاسیر کا ذکر روانی میں یوں کرتے‘گویا سب کی سب اُن کے سامنے رکھی ہوئی ہوں۔
مولوی جیؒ کے یوم وصال (عرس مبارک) کے موقع پر اُن کی زندگی کا ایک خاص واقعہ نذ
Авторское право:
Attribution Non-Commercial (BY-NC)
Доступные форматы
Скачайте в формате PDF, TXT или читайте онлайн в Scribd
ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
مولوی جیؒ ؒ : ’وارث علم ‘
جنوب مشرق ایشیاء کے قدیم ترین زندہ تاریخی شہر پشاور کا امتیاز رہا ہے کہ یہ ہر دور میں تہذیب و تمدن کا گہوارہ رہا۔ ماہرین آثار قدیمہ نے پشاور کی پہلی اینٹ کم و بیش چھبیس سو برس قبل رکھنے والوں پر اتفاق کرتے ہوئے کھدائیوں سے ملنے والے جن ظروف کو اوائل پشاور کی نشانی قرار دیا ہے وہ بھی منقش ہیں‘جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ دو ہزار سال قبل بھی اس خطے کے رہنے والے بودوباش کے اعتبار سے ممتاز تھے اور اُن کے زیراستعمال برتنوں اور یہاں کے فن تعمیر سے اِس بات کا اندازہ لگانا قطعی دشوار نہیں کہ یہ علاقہ دنیا بھر کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ حتی کہ قبل اسلام بدھ مت کا مرکز اور اس کی ترویج بھی اسی مردم شناس خطے سے ہوئی۔ یوں پشاور کی بات کرتے ہوئے کئی مستند حوالے اور شخصیات کا ذکر تاریخ میں محفوظ ہے‘ جنہیں سیاسی طور پر نہیں بلکہ حقیقی و معنوی اعتبار سے ’’فخر پشاور‘‘ کہا جاتا ہے اور دنیا سے پردہ کرنے کے باوجود بھی ’’سرتاج پشاور‘‘ کی مسندعالیشان پر جلوہ افروز ہیں‘ صرف دیکھنے والی آنکھ اور سننے والے کان ایک بیدار دل کے ساتھ محسوس کر سکتے ہیں پشاور میں جن کے دم کرم سے علم و عرفان کے چراغ ہوئے اور جنہوں نے اپنی پوری حیات ’’وقف پشاور‘‘کئے رکھی۔ سیاسی و سماجی اور روحانی قیادت کے ساتھ بھائی چارے‘ اخوت اور محبت کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا وہ سب لافانی ہیں۔ ایسی ہی ایک ممتاز و معروف شخصیت پیرطریقت حضرت سید محمد اَمیر شاہ قادری گیلانی المعروف مولوی جی رحمۃ اللہ علیہ (پیدائش 1920ء‘ وصال 2004ء) کی ہے‘ جو اپنا نام نامی تحریر کرنے سے قبل لفظ ’’فقیر‘‘ کا اضافہ فرما دیا کرتے کہ یہی اُن کا طریق تھا۔ درحقیقت اپنے نام کی مثل علم و دانائی‘ معاملہ فہمی اور سیاسی شعور کی معراج پر فائز تھے۔ قیام پاکستان کی تحریک اور جدوجہد میں اُن کی خدمات‘ آپ کے والد گرامی حضرت حافظ سیّد محمد زمان شاہ قادری گیلانی رحمۃ اللہ علیہ سمیت جملہ عقیدتمندوں و اہل خانہ کی قربانیں ایک روشن باب ہے جس کا احاطہ ضمنی طورپر ممکن نہیں۔
مولوی جیؒ کی ’مہمان نوازی‘ اور ’فراغ دلی‘ بھی کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ وسیع القلب اور کشادہ دسترخوان رکھنے والے درحقیقت پشاور کے ’نبض شناس‘ تھے۔ وہ مزاج اور رواج کو بخوبی سمجھتے‘ جانتے اور اُس کے قدرداں تھے۔ اُنہیں ’حفظ مراتب‘ کا ہمیشہ پاس رہتا اور یہی وجہ تھی کہ اُن کی موجودگی میں ہر محفل چاہے وہ کتنی ہی نجی کیوں نہ ہو‘ روحانی فیوض و برکات میں ڈھل جاتی اور اس میں ہر مکتبہ فکر و عقیدے سے تعلق رکھنے والوں کو چشمہ علم سے ’’فیض و تسکین‘‘ ملتی۔ فارسی (خالصتاً ادبی ایرانی و افغانی)‘ عربی‘ اُردو‘ پشتو اور ہندکو زبانوں پر مکمل عبور رکھتے۔ خاصہ یہ تھا کہ عجز و انکساری کے پیکر تھے۔ اپنی علمیت کے زعم میں کبھی بھی کسی کو حقیر یا کم علم نہ سمجھا۔ تربیت و شخصیت سازی پر توجہ مرکوز رکھی۔ اپنی پوری زندگی عقیدے کی اہمیت اور اس کی حفاظت پر زور دیتے رہے۔ علم دوستی کی انتہاء یہ تھی کہ اپنی مسند علمائے کرام کے لئے خالی کر دیا کرتے اور اُنہیں اپنی نشست گاہ پر تشریف رکھنے اور التماس دعا کرتے ہوئے میزبانی میں کسی بھی قسم کی کسر نہیں چھوڑا کرتے تھے۔ ملاقات کا شرف حاصل کرنے والوں کو ’بقدر ظرف اور سمجھ‘ علم اور تحائف عطا کرتے ہوئے کبھی بھی کنجوسی سے کام نہیں لیا اور یہی وجہ تھی کہ ’عام فہم ہلکے پھلکے انداز اور ہندکو زبان میں بات چیت کرنے والے مولوی جیؒ کے دردولت ’’اَندرون یکہ توت‘ کوچہ آقا پیر خان‘‘ میں آستانہ عالیہ تشناگان علم‘ کی روحانی تسکین و تشفی کا مرکز رہا اور آج بھی اُن کی ذات بابرکات کے فیض و برکات سے مستفید ہونے والوں کو وہاں ہجوم رہتا ہے۔ عجز و انکسار اور سادگی میں مولوی جیؒ کا ثانی نہ تھا۔ آپ دین کی سمجھ بوجھ اور علم و دانائی کے سبب عالمی شہرت رکھتے تھے۔ آپ کی کئی تصانیف برطانیہ و امریکہ کے مرکزی کتب خانوں کا حصہ ہیں‘ جنہیں اسلامی علوم کی تشریح و بیان کے حوالے سے مستند درجہ حاصل ہے جبکہ تصوف اور علوم دین کی پیاس رکھنے والوں کے لئے آج بھی مولوی جیؒ کی تصانیف سے استفادہ کئے بناء چارہ نہیں۔
فقہ حنفی اور طریقت میں سلسلہ قادریہ حسنیہ سے تعلق رکھنے والے مولوی جیؒ کے لئے کتاب گویا ’آکسیجن‘ جیسا درجہ رکھتی تھی۔ ایک ٹریفک حادثے سے آپ کی بصارت متاثر ہوئی لیکن کتاب سے تعلق ٹوٹنے نہ دیا۔ یاداشت ایسی تھی کہ حوالہ دیتے ہوئے احادیث و تفاسیر و عربی و فارسی لغات اور ادب کی کتب کی جلد‘ صفحہ نمبر‘ حتی کہ حاشیے پر لکھی ہوئی کسی عبارت کا حوالہ تک دے جاتے اور اپنے ایک ہی بیان میں متعدد کتب احادیث و تفاسیر کا ذکر روانی میں یوں کرتے‘گویا سب کی سب اُن کے سامنے رکھی ہوئی ہوں۔
مولوی جیؒ کے یوم وصال (عرس مبارک) کے موقع پر اُن کی زندگی کا ایک خاص واقعہ نذ
Авторское право:
Attribution Non-Commercial (BY-NC)
Доступные форматы
Скачайте в формате PDF, TXT или читайте онлайн в Scribd